حصہ اول - قدیم ہندوستان
زمانہ بدل گیا، مذہب بدل گئے، تہذیبیں بدل گئیں، لیکن انسان نہیں بدلا۔ وہی محبت، وہی نفرت، وہی حسد، وہی لالچ، وہی خوف، وہی امید۔
گوتم نے سوچا، 'کیا یہ سب کچھ پہلے بھی ہو چکا ہے؟ کیا میں پہلے بھی اس دنیا میں آ چکا ہوں؟ کیا میں پہلے بھی چمپا سے محبت کر چکا ہوں؟'
اس نے آسمان کی طرف دیکھا۔ ستارے چمک رہے تھے، وہی ستارے جو ہزاروں سال پہلے بھی چمک رہے تھے، اور ہزاروں سال بعد بھی چمکتے رہیں گے۔
زمانہ بدل گیا، مذہب بدل گئے، تہذیبیں بدل گئیں، لیکن آسمان نہیں بدلا، ستارے نہیں بدلے، اور انسان کا دل بھی نہیں بدلا۔
چمپا ایک خوبصورت لڑکی تھی۔ وہ راجا کی بیٹی تھی، اور گوتم ایک عام آدمی تھا۔ لیکن محبت میں کوئی اونچ نیچ نہیں ہوتی۔ محبت میں صرف دو دل ہوتے ہیں، اور یہ دو دل ایک دوسرے کو چاہتے ہیں۔
گوتم نے چمپا سے کہا، 'میں تم سے محبت کرتا ہوں۔'
چمپا نے کہا، 'میں بھی تم سے محبت کرتی ہوں، لیکن ہم ایک دوسرے سے شادی نہیں کر سکتے۔'
گوتم نے پوچھا، 'کیوں؟'
چمپا نے کہا، 'کیونکہ میں راجا کی بیٹی ہوں، اور تم ایک عام آدمی ہو۔ ہمارے درمیان زمین آسمان کا فرق ہے۔'
گوتم نے کہا، 'محبت میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔'
چمپا نے کہا، 'محبت میں نہیں، لیکن دنیا میں ہوتا ہے۔ اور ہمیں اس دنیا میں رہنا ہے۔'
گوتم نے کہا، 'تو پھر ہم کیا کریں؟'
چمپا نے کہا، 'ہم انتظار کریں۔ شاید اگلے جنم میں ہم ایک دوسرے سے مل سکیں۔'
گوتم نے کہا، 'اگلا جنم؟ کیا تم اس پر یقین رکھتی ہو؟'
چمپا نے کہا، 'ہاں، میں یقین رکھتی ہوں۔ میں یقین رکھتی ہوں کہ ہم بار بار اس دنیا میں آتے ہیں، اور بار بار ایک دوسرے سے ملتے ہیں۔'
گوتم نے کہا، 'اور اگر ہم اگلے جنم میں بھی نہیں مل سکے؟'
چمپا نے کہا، 'تو پھر اس کے اگلے جنم میں۔ اور اگر اس میں بھی نہیں، تو اس کے اگلے میں۔ ہم تب تک انتظار کریں گے جب تک کہ ہم ایک دوسرے سے نہیں مل جاتے۔'
اور یوں گوتم اور چمپا نے انتظار کرنا شروع کیا۔ وہ انتظار جو صدیوں تک چلا، جو ہزاروں سالوں تک چلا، جو آج بھی جاری ہے۔
حصہ دوم - مغل دور
کئی صدیاں گزر گئیں۔ گوتم اب کمال تھا، اور چمپا اب چمپا کلی تھی۔ وہ مغل دربار میں تھے، اور بادشاہ اکبر کا زمانہ تھا۔
کمال ایک شاعر تھا، اور چمپا کلی ایک رقاصہ تھی۔ وہ دونوں دربار میں ملے، اور پھر سے ایک دوسرے سے محبت ہو گئی۔
لیکن اس بار بھی وہ ایک دوسرے سے شادی نہیں کر سکے۔ کمال ایک ہندو تھا، اور چمپا کلی ایک مسلمان تھی۔ اس زمانے میں مذہبی فرق بہت بڑا مسئلہ تھا۔
کمال نے چمپا کلی سے کہا، 'میں تم سے محبت کرتا ہوں۔'
چمپا کلی نے کہا، 'میں بھی تم سے محبت کرتی ہوں، لیکن ہم ایک دوسرے سے شادی نہیں کر سکتے۔'
کمال نے پوچھا، 'کیوں؟'
چمپا کلی نے کہا، 'کیونکہ تم ہندو ہو، اور میں مسلمان ہوں۔ ہمارے مذہب مختلف ہیں۔'
کمال نے کہا، 'محبت میں کوئی مذہب نہیں ہوتا۔'
چمپا کلی نے کہا، 'محبت میں نہیں، لیکن دنیا میں ہوتا ہے۔ اور ہمیں اس دنیا میں رہنا ہے۔'
اور پھر سے وہی کہانی دہرائی گئی۔ انتظار، جدائی، اور اگلے جنم کی امید۔
حصہ سوم - برطانوی دور
مزید صدیاں گزر گئیں۔ اب گوتم کریل تھا، ایک انگریز افسر، اور چمپا اب کملا تھی، ایک ہندوستانی لڑکی۔
یہ برطانوی راج کا زمانہ تھا، اور ہندوستان غلام تھا۔ کریل اور کملا کی محبت اب نسلی فرق کی وجہ سے ممکن نہیں تھی۔
کریل نے کملا سے کہا، 'میں تم سے محبت کرتا ہوں۔'
کملا نے کہا، 'میں بھی تم سے محبت کرتی ہوں، لیکن ہم ایک دوسرے سے شادی نہیں کر سکتے۔'
کریل نے پوچھا، 'کیوں؟'
کملا نے کہا، 'کیونکہ تم انگریز ہو، اور میں ہندوستانی ہوں۔ تم حکمران ہو، اور میں غلام ہوں۔'
اور پھر سے وہی کہانی۔ وہی انتظار، وہی جدائی، وہی امید۔
حصہ چہارم - آزادی کے بعد
1947 میں ہندوستان آزاد ہوا، لیکن تقسیم بھی ہوئی۔ اب گوتم کمال تھا، ایک ہندوستانی، اور چمپا اب چمپا تھی، ایک پاکستانی۔
تقسیم نے انہیں پھر سے الگ کر دیا۔ اب وہ دو مختلف ملکوں میں تھے، اور سرحد ان کے درمیان دیوار بن گئی تھی۔
کمال نے چمپا سے کہا، 'میں تم سے محبت کرتا ہوں۔'
چمپا نے کہا، 'میں بھی تم سے محبت کرتی ہوں، لیکن ہم ایک دوسرے سے شادی نہیں کر سکتے۔'
کمال نے پوچھا، 'کیوں؟'
چمپا نے کہا، 'کیونکہ تم ہندوستانی ہو، اور میں پاکستانی ہوں۔ ہمارے درمیان سرحد ہے۔'
اور پھر سے وہی کہانی۔ ہزاروں سال گزر گئے، لیکن کہانی وہی رہی۔ محبت وہی، رکاوٹیں مختلف۔
آگ کا دریا بہتا رہا، اور اس کے ساتھ انسان کی کہانی بھی بہتی رہی۔ زمانہ بدلا، حالات بدلے، لیکن انسان کا دل نہیں بدلا۔
اور آج بھی، کہیں نہ کہیں، گوتم اور چمپا انتظار کر رہے ہیں۔ انتظار اس دن کا جب وہ بغیر کسی رکاوٹ کے ایک دوسرے سے محبت کر سکیں گے۔
You are viewing the complete content. Use the “Paginated” button above to switch to page-by-page reading.